اس پراسرار غار میں کون تھا؟

اس پراسرار غار میں کون تھا؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنی زندگی کا یہ تلخ ترین اور خوفناک واقعہ کیسے بیان کروں۔نہ جانے مجھ سے پہلے بھی ایسی بہت سی لڑکیاں یہ کشٹ جھیل چکی ہوں گی جب انہیں ایسے خوفناک حادثہ سے گزرنا پڑا ہوگا یا میں ہی واحد بدنصیب لڑکی ہوں ?میں یہ واقعہ اس لیئے سنانا چاہتی ہوں کہ جو غلطی میں نے کی آئندہ کوئی لڑکی ایسی حرکت ہرگز نہ کرے کہ وہ کسی ویران جگہ پر نہانے کی ضد کر بیٹھے۔چند سال پہلے کی بات ہے میں اپنی یونیورسٹی ٹرپ کے ساتھ ہانس پور گئی تو مجھے اس شرمناک واقعہ سے گزرنا پڑا۔میں آپ کو بتا دوں کہ سکول کے زمانے میں جب کبھی کوئی ٹرپ جاتا تھا تو گھر والوں کی جانب سے اجازت نہیں ملا کرتی تھی لیکن یونیورسٹی پہنچی تو گھر والوں پر دھونس جما کر میں نے اجازت لے لی تھی۔ امی بہت پریشان تھیں کہ زمانہ خراب ہے تم کہاں اتنی دور جاﺅ گی ؟ لیکن میں زندگی کا یہ بہترین دور یونہی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ، میں نے امی کو قائل کرلیا کہ اب میں سمجھدار اور بڑی ہوچکی ہوں اس لئے وہ پریشان نہ ہوا کریں۔
ہمارے ساتھ کلاس فیلو ز لڑکے بھی ٹرپ میں شامل تھے، ان میں ابرار جو بہت زیادہ پرجوش نوجوان تھا وہ بھی ہمارے ساتھ تھا ، وہ لڑکیوں سے ذرا دب کر بھی رہتا اور گھبرا بھی جاتا تھا ،مجھے وہ بہت شریف لگتا تھا اس لئے کہ وہ حیا دار تھا ، ویسے بھی ہینڈسم تھا اور قدرے امیر بھی۔اس ٹور میں مجھے وہ بہت اچھا لگااور ہماری دوستی ہوگئی، جس دن ہم ہانس پور پہنچے اس سے دوسرے دن ابرار نے پہاڑکے اوپر تک جانے کا فیصلہ کرلیا،موسم قدرے خراب تھا،طوفانی بارش کی پیش گوئی کی جارہی تھی۔ ریسٹ ہاو? س کے چوکیدار نے بتا دیا تھا کہ اس موسم میں پہاڑ کی چوٹی پر نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر وہاں رات ہوگئی تو واپسی پر مشکل ہوگی لیکن ابرارکی دیکھا دیکھی تین لڑکے اور لڑکیاں مزید تیار ہوگئے، ہم دوپہر کو پہاڑ پر آسانی سے چڑھ گئے ،راستے میں خوب ہلہ گلہ جاری رہا۔ہائی کنگ کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے ، پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر دیکھا تو قدرت کا نظارہ ہمارے دلوں کو چھونے لگا،ہم بادلوں میں خود کو تیرتا ہوا محسوس کررہے تھے۔میں نے دیکھا کہ ابرار اس دوران ایک جانب جا رہا ہے،اس طرف کافی درخت تھے ،میں نے اسے آواز دی کہ وہ ادھر کیوں جارہا ہے؟ ا س نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں بھی اسکے پیچھے بھاگتی ہوئی اس طرف چل دی ، تھوڑی دیر بعد میں نے اسے جالیا ” تم کہاں جارہے ہو“؟
میں نے پوچھا تو بولا” ادھر درختوں کے پار ذرا نیچے ایک گرم چشمہ ہے جو ایک غار سے نکلتا ہے ، اس کا پانی انتہائی شفابخش ہے اور جو ایک بار اس میں نہا لیتا ہے کئی سال تک اسکی توانائی قائم رہتی ہے، اسکو الرجی نہیں ہوپاتی،میں جب بھی آتا ہوں اس میں ایک بار تو نہا کر واپس جاتا ہوں “
”اچھا۔۔۔تو تم نہانے جارہے ہو“ میں نے پوچھا تو اس نے اقرار میں سر ہلایا۔
” اگر کوئی لڑکی نہانا چاہے تو “ میں نے پوچھا۔
” وہ غار میں گھس کر نہا لے“اس نے جواب دیا اور کچھ دیر بعد ہم اس چشمے تک پہنچ گئے،اس کا پانی گرم تھا۔ ابرار نے کپڑے اتارے اور میں ہونقوں کی طرح اسکو دیکھتی رہ گئی۔وہ نیکر پہن کر گرم چشمہ میں اتر گیا اور جب نہا کر باہر آیا تو انتہائی فریش دکھائی دے رہا تھا۔

تم نہانے نہیں گئی ؟ اس نے پوچھا
میں جھجک گئی ”ڈر لگتا ہے“
” ارے ڈر کیسا ،یہاں اور کون ہے؟ کہو شرم آتی ہےاور اسکا ایک حل ہے تم غار میں چلی جاو ? ،پانی ادھر ہی سے آتا ہے، میں ادھر تمہاری حفاظت کے لئے پہرہ دوں گا“اسکی بات مجھے معقول لگی اور میں چند قدم اوپر اس غار نما کھو ہ کی جانب چلی گئی،بغیر کوئی بات سوچے۔غار میں کافی اندھیرا تھا لیکن جب میں ذرا آگے بڑھی تو مجھے چشمہ کا شور سنائی دیا اور ہلکے سے اندھیرے میں بھنبناہٹ بھی سنائی دی، یوں لگا جیسے مکھیاں آپس میں الجھ رہی ہوں ، میں مکمل احتیاط سے غار میں موجود چشمہ تک پہنچی اور کپڑے اتار کر جب گرم چشمہ میں اتری تو اسقدر سرور ملا کہ میں تو جیسے بے خود ہوگئی، نہ جانے اس پانی میں کیسی تاثیر تھی کہ کافی دیر تک پانی میں بے خود سی پڑی رہی ، میرااس پانی سے باہر نکلنے کو کوئی دل نہیں چاہ رہا تھا۔معاً مجھے احساس ہوا جیسے پانی میں میرے سوا بھی کوئی اور موجود ہے، یکایک خیال آیا کہیں ابرار تو نہیں ہے؟ مجھے یکدم شرم اور خطرہ محسوس ہوا ” تم ادھر کیوں آئے ہو“
لیکن تب تک وہ وجود میرے بہت قریب آچکا تھا ، اس نے مجھے عقب کی جانب سے اپنے بازووں میں جکڑ لیا ، اسکی گرم گرم سانسیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں اور سینہ زور زور سے دھڑک رہا تھا ، میں مچلی،اسکے بازووں سے نکلنا چاہا اور ایک بار تو میں واقعی اسکی گرفت سے نکل گئی ، جونہی اس پر نظر پڑی تو میری چیخ نکل گئی،اسکا چہرہ عام انسانوں سے بہت بڑا تھا ،آنکھیں باہر کو ابل رہی تھیں، اس سے قبل میں کچھ کرتی اس نے یکایک میرے منہ پر ہاتھ رکھااور دوسرے ہاتھ سے اپنی جانب کھینچ کراپنے سینے سے لگا لیا۔اس دوران میں نے بہت کوشش کی کہ اس اس ظالم کی گرفت سے نکل جاؤں لیکن یہ میرے بس میں نہیں تھا۔گرم چشمے کے پانی نے میرے بدن کی پور پور کو عجیب سا لمس دیکر اس بے غیرت کی گود میں پھینک دیا تھا،مجھے صرف ایک احساس ہورہا تھا کہ پانی میں اس وقت بڑی ہلچل ہورہی تھی۔وہ کسی بے تاب درندے کی طرح میری پوورں کی کمزوریوں سے کھیل رہا تھا ، میں مجبور تھی اور لاچار بے خود ، نہ جانے وہ مجھے کب تک یونہی بھبوڑتا،نچوڑتا رہا۔جب آنکھ کھلی تو ابرار میرے اوپر جھکا ہوا تھا ”رابعہ آنکھیں کھولو،رابعہ کیا ہوا تمہیں“ میں نے غنودہ سی حالت میں آنکھیں کھولیں تو دیکھا میرے بدن پر میرے کپڑے موجود ہیں اور ابرارپریشانی سے مجھے ہوش میں لارہا ہے، کیا ہوا رابعہ بولتی کیوں نہیں ؟ تم تو نہانے آئی تھی کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ ؟ میں اٹھ کر بیٹھ گئی ،دیکھا تو میرے بال گیلے تھے،بدن خشک۔۔۔۔۔” یہ “ میں نے ابرار کی طرف دیکھا ” ہاں میں نے پہنائے ہیں ، میں نے جب دیکھا تمہیں غار میں گئے آدھا گھنٹہ ہوگیا ہے تو فکر مند ہوگیا تھا ،دیکھا کہ تم پانی میں ڈبکیاں کھارہی تو میں نے تمہیں باہر نکالا اور کپڑے پہنا دیئے۔ویسے میں اس بات پر سخت شرمندہ ہوں لیکن مجبوری تھی کیا کرتا ؟
” وہ کہاں گیا ؟“ میں متوحش نظروں سے چشمہ کی جانب دیکھنے لگی۔
”کون؟ ادھر تو کوئی نہیں ہے، اس نے اردگرد نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔اس دوران میں نے خود کو سمیٹا اور احساس ہوا کہ اگر ابرارنے اس عجیب و غریب شخص کو نہیں دیکھا جس نے گرم پانی میں میری مجبوری کا فائدہ اٹھایا ہے تو اسکو بتاکر کیوں میں اپنا راز کھولوں ؟میں نے اسکو تو نہیں بتایا لیکن میں نے اس بات کی پوری تسلی کی کہ کیا اس غار میں ہمارے علاوہ بھی کوئی ہے ؟ تو واقعی وہاں کوئی نہیں تھا ، واپسی پر جب ہم ریسٹ ہاﺅس پہنچے تو رات کو باتوں ہی باتوں میں ابرار نے بتادیا کہ رابعہ غار میں گرم چشمہ میں نہانے گئی تھی تو اسکی بات سن کر ہمارا ریسٹ ہاﺅ س کا خانساماں چونک اٹھا اور جھٹ سے بولا ” ناں جی ناں ،ایسا نہیں ہوسکتا ، اس غار میں تو جنات رہتے ہیں اور اگر کوئی لڑکی وہاں جا کر نہائے تو............“ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر میری جانب دیکھا تو فق ہوتا ہوا میرا چہرہ اس سے چھپا نہ رہ سکا۔

Back to blog